Skip to main content

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار/تشریح "مرزا غالب

 

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا – مرزا غالب کا معروف شعر مع تشریح

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
کچھ اور دن جئے ہوتے، یہی انتظار ہوتا

— میرزا غالب




تشریح

یہ مرزا غالب کا بہت معروف شعر ہے جس میں وہ محبوب کی جدائی کا ذکر کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میری قسمت میں محبوب سے ملنا خدا نے طے ہی نہیں کیا تھا۔ پوری زندگی میری انتظار میں گزری کہ کبھی تو وصال یار نصیب ہو، غالب بالکل مایوس ہو چکے ہیں۔ غالب کے خیال میں  کہ اگر کچھ اور دن بھی زندہ رہتے تو اسی انتظار میں وقت گزر جاتا۔

اور یہی بے قراری بر قرار رہتی اور انتظار  میں ہی زندگی گزر جاتی۔ اور یہ دستور ہی رہا ہے کہ عاشق کے حصے میں محبوب کا انتظار اور ناامیدی ہی نصیب میں رہی ہے وصل تو فقط ایک سہانا خواب ہی ہے جو کبھی حقیقت نہیں بنتا!

زندگی کا حاصل ہی محبوب کے انتظار میں گزر گیا۔ اور وصال یار ایک خواب ہی رہا۔

مرکزی خیال

اس شعر میں غالب نے اپنی بے بسی، عشق میں ناکامی اور گہری مایوسی کا ذکر کیا ہے، اور انتظار کی اذیت اور تکلیف کو بیان کیا ہے کہ وصال یار کے لیے امید لگا کر انتظار کرنا کس قدر تکلیف دہ ہے۔

ادبی خوبیاں

  • فلسفیانہ انداز: غالب ایک فلسفی شاعر تھے، وہ اس شعر میں فلسفیانہ انداز میں اپنی قسمت اور تقدیر پر غور کر رہے ہیں۔
  • اس شعر میں انتظار کی شدت اور کرب کو بیان کیا گیا ہے جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، جس سے زندگی بے معنی اور بے مقصد لگنے لگتی ہے۔
  • شعر میں عشق میں ناکامی کا ذکر کیا گیا ہے جو سب غموں پر بھاری ہے اور مستقل غم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔

اردو شاعری کی تشریح: غالبؔ کی شاعری

اس بلاگ میں ہم نے غالبؔ کی مشہور اردو شاعری کی تفصیلی تشریح اور معنی بیان کیے ہیں۔ اگر آپ اردو ادب، کلاسیکل شاعری، اور معروف شعرا کی تشریحات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمارے بلاگ کو فالو کریں۔

  • اردو شاعری کی وضاحت
  • شاعر کا ادبی پس منظر
  • شعر کا مکمل مفہوم اور تشریح

مزید اردو ادب کی تشریحات، اشعار کی گہرائی میں جانے کے لیے ہماری ویب سائٹ کا وزٹ کرتے رہیں۔

اختتامیہ (Call to Action)

اگر آپ کو مرزا غالب کی شاعری پسند آئی ہو، تو ہماری ویب سائٹ پر دیگر مشہور اشعار کی تشریحات بھی ضرور ملاحظہ کریں اور اردو ادب کے خزانے سے لطف اندوز ہوں۔


مزید پڑھیے: اردو اشعار کی بہترین تشریحات

مزید اشعار کی تشریحات کے لیے ہمارے بلاگ کو فالو کریں۔


Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...