Skip to main content

 شعر

غالب کے مشکل شعر کی تشریح 

 ہوچکیں غالبؔ بلائیں سب تمام 

ایک مرگ ناگہانی اور ہے




عنوان

اس شعر میں غالب نے اپنی زندگی کے کروب و تکلیف کو درد بھرے انداز میں بیان کیا ہے جن سے وہ دوچار رہے۔
ایک مرگ ناگہانی اور ہے کہہ رہے ہیں یعنی اچانک آنے والی موت رہ گئی ہے باقی تکلیفوں کے بعد۔

تمہید 

اردو ادب میں غالب کا مقام بہت بلند ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں غالب اردو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔غالب ہر دور میں غالب (بلند* رہے ہیں  غالب کے اشعار میں خاص طور پر فلسفہ ؛دنیا کی بے ثباتی دنیا کے رنج و الم اور انسان کی بے بسی کا ذکر کیا گیا ہے

پس منظر (Context)

یہ شعر دیوان غالب کا ہےیہ غالب کی دکھ بھری زندگی  اور مصائب و آلام کا آئینہ دار ہے۔غالب قرض اور شراب نوشی میں مبتلا رہتے تھے جس کی وجہ سے زندگی اجیرن  ہو گئی تھی۔غالب کو انگریزی دور میں پنشن کے لیے بہت تگ ودوہ کرنی پڑی تھی۔جس کے لیے غالب نے مشکل سفر طے کئے۔اس شعر میں غالب نے سب تکلیفوں کے بعد موت کے آنے کا ذکر کیا ہے کہ ان تکلیفوں کے بعد بس  اچانک  موت کی دیر ہے۔

تشریح 


غالب اس شعر میں اپنی زندگی کی تکلیفوں اور آزمائش کا ذکر کر رہے ہیں غالب مالی پریشانیوں سے آخر د  تک دوچار رہے  اکثر قرض خواہ رہتے تھے 
جوے کی لت میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے غالب کو جیل بھی جانا پڑا۔تمام درخواست جیسے اکٹھے ہو گئے تھے غالب کے لیے جس کی وجہ سے زندگی آزمائش بن کر رہ گئی۔غالب کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اولاد پیدا ہو ے کے بعد اولاد کی وفات کا  صدمہ بھی غالب نے اٹھایا۔لیکن اب ایک ایسی چیز باقی رہ گئی ہے جس کی نہ کوئی خبر ہے، نہ تیاری — اور وہ ہے مرگِ ناگہانی، یعنی اچانک موت۔


شعر میں 
مرگ ناگہانی کا ذکرجسما نی موت کا استعارہ ہے یہ شعر ہمیں موت کی طرف توجہ دلاتا ہے جو ہر انسان کو اچانک آتی ہے غالب کے بقول انسان چاہے جتنا زندگی کی آزمائش میں ہو سب سے بڑی آزمائش اور تکلیف اچانک موت کا آنا ہے۔غالب نے فلسفیانہ انداز میں زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے۔ موت کا وہ لمحہ جو سب کچھ بدل دیتا ہے۔





غالب کے شعر کی تشریح

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام – تشریح، پس منظر، اور فنی تجزیہ

شاعر: مرزا غالب

شعر:
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

تشریح:

غالبؔ اس شعر میں اپنی زندگی کی تمام مشکلات اور مصائب کا ذکر کرتے ہیں جو وہ پہلے ہی جھیل چکے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ صرف ایک اچانک موت باقی رہ گئی ہے جو ان کی زندگی کا آخری امتحان ہے۔

پس منظر:

یہ شعر غالبؔ کے دیوان سے لیا گیا ہے اور ان کی زندگی کے آخری ایام کی عکاسی کرتا ہے جب وہ مالی مشکلات، ذاتی نقصانات اور معاشرتی مسائل سے دوچار تھے۔

فنی خوبیاں:

  • استعارہ: "مرگِ ناگہانی" کا استعمال اچانک موت کے لیے
  • تضاد: بلائیں ختم ہونے کے بعد بھی ایک بلا باقی ہے
  • تشبیہ: زندگی کی مشکلات کو بلاؤں سے تشبیہ دینا

مشکل الفاظ اور معانی:

لفظ معنی
بلائیں مصیبتیں، مشکلات
مرگِ ناگہانی اچانک موت

مزید اشعار کی تشریح:

Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...