Skip to main content

ہم جی رہے ہیں، کوئی بہانہ کیے بغیر – جون ایلیا

شاعری دل کا آئینہ ہوتی ہے، اور جون ایلیا جیسے شاعر اپنی سادہ لیکن گہری باتوں سے قاری کے دل کو چھو جاتے ہیں۔ آج کی اس بلاگ پوسٹ میں ان کے کچھ خاص اشعار شامل کیے جا رہے ہیں جنہیں آپ میری آواز میں نیچے ویڈیو میں بھی سن سکتے ہیں۔ یہ اشعار نہ صرف دل کی کیفیت بیان کرتے ہیں بلکہ ایک مکمل کیفیتِ تنہائی اور بےنیازی کو بھی پیش کرتے ہیں۔

اور جون محبوب کو اٹھتے بیٹھتے سوتے،جاگتے اپنے قریب محسوس کرتے ہیں اور ہر حال میں محبوب کا ساتھ چاہتے ہیں۔


ہم جی رہے ہیں، کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر، اس کی تمنا کیے بغیر
انبار اُس کا پردۂ حرمت بنا میاں 

دیوار تک نہیں گری پردا کیے بغیر
یاراں وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل

بے حد عزیز ہے مجھے اچھا کیے بغیر
میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس

صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
اس کا ہے جو بھی کچھ ہے مرا اور میں مگر

وہ مجھ کو چاہئے کوئی سودا کیے بغیر
یہ زندگی جو ہے اسے معنیٰ بھی چاہیے

وعدہ ہمیں قبول ہے ایفا کیے بغیر
اے قاتلوں کے شہر بس اتنی ہی عرض ہے

میں ہوں نہ قتل کوئی تماشا کیے بغیر
مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بے حساب ہے

تم چھوڑیو نہ شہر کو صحرا کیے بغیر
ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا

آرائش نظر تری پروا کیے بغیر
یاراں خوشا یہ روز و شب دل کہ اب ہمیں

سب کچھ ہے خوش گوار گوارا کیے بغیر
گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام

ہم گریہ کن ازل کے ہیں گریہ کیے بغیر
آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے

تاریخ کے حرام سے توبہ کیے بغیر
وہ سنی بچہ کون تھا جس کی جفا نے جونؔ

شیعہ بنا دیا ہمیں شیعہ کیے بغیر
اب تم کبھی نہ آؤ گے یعنی کبھی کبھی

رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر


یہ اشعار ایک ایسی کیفیت کو بیان کرتے ہیں جہاں شاعر مکمل طور پر اپنی تنہائی میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن اس میں کوئی دکھاوہ، کوئی فریاد نہیں۔ بغیر کسی شکایت کے، بغیر کسی تمنا کے، وہ جینے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہی جون ایلیا کی شاعری کی خاصیت ہے کہ وہ دل کو چھو لینے والی خاموشیاں بیان کرتے ہیں۔

آخری شعر جو دل کی گہرائیوں کو چھو لیتا ہے 

اب تم کبھی نہ آو گے یعنی کبھی کبھی 

رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر



جون ایلیا کی یہ غزل تو کیا ہر غزل لاجواب ہوتی ہے اور انکے خاص انداز کو ظاہر کرتی ہے کہ جون ایلیا باکمال اور لازوال شاعر تھے۔

نیچے ویڈیو دیکھیں اور میری آواز میں اشعار سنیں:


جون ایلیا کی مکمل غزل:

یہاں مکمل غزل پیسٹ کریں...


اگر آپ کو یہ بلاگ پوسٹ اور ویڈیو پسند آئے تو براہ کرم کمنٹس میں اپنی رائے دیں۔ آپ کی رائے میرے لیے نہایت اہم ہے اور آئندہ ایسی مزید پوسٹس کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔ مزید اردو شاعری اور تشریحات کے لیے میرے بلاگ کو فالو ضرور کریں۔

شکریہ! – آپ کی مخلص

زہرہ بتول🙏


اردو شاعری کی تشریح اور معنی

ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:

  • اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
  • فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
  • فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
  • جون ایلیا کی اداس شاعری
  • داغ دہلوی کا رومانوی انداز

مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔

Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...