Skip to main content

 عنوان (Title):H1


"غمِ عشق کی زبان: میر تقی میر کا سب سے دل چھو لینے والا شعر | Urdu Poetry Explained"


تعارف H2


میر تقی میر کی شاعری اردو ادب کا بہت اہم اور قیمتی خزانہ ہے۔میر کے مشہور شعر بہت سے ہیں جو ضرب المثل بن چکے ہیں۔





اردو کلاسیکی شاعری کا نام لیا جائے تو پہلے میر تقی میر کا نام ذہن میں آتا ہے میر کا دور 18 ویں صدی عیسوی کا دور ہے۔درد بھری اردو شاعری ہمیں میر کے ہاں کثرت سے ملے گی کیونکہ میر نے زندگی میں بہت مشکلات و آزمائشیں دیکھیں۔میر تقی میر کی غزل میں ہم ان کا دکھ پڑھ سکتے ہیں۔
 عشق کے موضوع پر میر تقی میر کے کلام کو  بہت مقبولیت ملی ۔میر کو خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا جو بہت ان کی عظمت کو واضح کرتا ہے۔

اس بلاگ میں ہم میر تقی میر کے ایک شعر کی تشریح سمجھیں گے۔میر تقی میر کےاشعار کا مطلب اکثر عوام الناس سمجھ نہیں پاتے کچھ اشعار کافی مشکل ہوتے ہیں۔

میر نے محبوب کا ذکر شاعری میں دلنشین اور احسن طریقے سے کیا ہے۔
میر تقی میر اردو کے عظیم شاعر ہیں۔جن کی عظمت کو مرزا غالب جیسے عظیم شاعر نے بھی تسلیم کیا غالب کہتے ہیں:


غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں

شعر H3


کوئی ان طوروں سے گذرے ہے ترے غم میں مری

گاہ تو نے نہ سنا حال مرا گاہ سنا


مشکل الفاظ کے معنی 


طوروں/طریقوں 

گاہ/کبھی کبھی یا بعض اوقات 

حال/دل کی حالت

تشریح H4


اس شعر میں شاعر اپنی دلی کیفیت کو بیان کر رہا ہے اور اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں تیری محبت اور یادوں میں جس حالت سے گزرا ہوں وہ کوئی نہیں جانتا تو بھی نہیں جانتا۔جو تکلیف اور آزمائشیں میں نے دیکھی ہیں کوئی ان کو محسوس نہیں کر سکتا۔

اور محبوب سے شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب تو نے بھی میرا حال گاہ/یعنی کبھی سنا اور کبھی سنا ان سنا کر دیا مطلب احساس نہیں کیا۔

شعر میں شاعر نے نہایت نرم لہجے اور شکوہ بھرے انداز میں اپنی قسمت تنہائی اور محبوب کی عدم توجہی کو بیان کیا ہے۔سادہ الفاظ اور نرم الفاظ کا انتخاب شعر میں کیا گیا ہے۔


فنی خوبیاں H5


شعر میں تصویر نگاری کی گئی ہےجیسا کہ "ان طوروں سے گزرنا "تصویری انداز میں حال دل بیان کرنا ہے۔

سہل ممتنع 

مطلب شعر پڑھنے میں سادہ ہے لیکن معنی گہرے پیش کر رہا ہے۔

تکرار لفظی

گاہ گاہ کا لفظ تکرار پیدا کر راہے جو شاعر کے جذبات کو واضح کر رہا ہے۔


میر کے اس شعر میں ان کا کلاسیکل انداز واضح ہے جو انکی خصوصیت ہے۔




ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔



اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں


مزید پڑھیں 









Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...