Skip to main content

 عنوان H1

طلبِ دنیا اور مردانہ ہمت کا فلسفہ: خواجہ آتش کا عارفانہ شعر اور اس کی تشریح"

شعر H2


طلب دنیا کو کر کے زن مریدی ہو نہیں سکتی
خیال آبروئے ہمت مردانہ آتا ہے




سیاق و سباق H3


یہ شعر خواجہ حیدر علی آتش کا ہے۔جس میں آتش طلب دنیاکی بات کر رہے ہیں کہ کس طرح دنیاوی لالچ رکھنے والے لوگ اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔کس طرح زن مریدی اختیار کرتے ہیں جو کہ کمزوری کی علامت ہے۔خواجہ آتش کا یہ فلسفہ جاندار ہے۔خواجہ آتش کے اردو اشعار میں ہم خودداری کا سبق سیکھتے ہیں آتش فطری طور پر خوددار واقع ہوئے تھے۔

خواجہ حیدر علی آتش کے اشعار میں محبوب سے عشق اورہجرووصال پر بہت سا مجموعہ ہے جو الگ انداز میں ہے۔کلاسیکی اردو شاعری آتش کے بغیر نامکمل ہے۔

مشکل الفاظ کے معنی H4


طلب دنیا/دنیا کی ہوس و لالچ
زن مریدی/عورت کی اطاعت کرنا مراد کمزوری اور بے غیرتی
آبرو/عزت
ہمت مردانہ /مردوں کی ہمت


تشریح H5


آتش اس شعر میں کہتے ہیں کہ دنیا کی لالچ اور رنگینیوں میں کھو جانے والاانسان کبھی ہمت والا اور دنیا و آخرت میں عزت نہیں پاتا وہ دنیا کی زندگی کے لالچ میں اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتا ہے۔

دنیاوی حرص کو آتش نے زن مریدی یعنی بے غیرتی قرار دیاہے۔جو مردانہ صفات کے خلاف ہے۔آتش خودداری کا درس اس شعر میں دے رہے ہیں یہ شعر ہمیں ایک سبق دیتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی اپنی خودداری عزت نفس اور اخلاق پر کس چیز کو سبقت نہیں دینی چاہیے دنیا کی لالچ نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ لالچ بری بلا ہے جہاں یہ بسیرا کر لے یہ برائیوں کو جنم دیتی ہے۔


فنی خوبیاں H6


اخلاقی پیغام
آتش کا شعر اخلاق و تصوف پر مشتمل ہے جس میں دنیاوی لالچ اور رنگینیوں سے بچنے کا درس دیا گیا ہے۔

مختصر اور جامع الفاظ کا استعمال 

آتش نے آسان اور سادہ مختصر الفاظ میں بڑا مسئلہ پیش کیا ہے اور اس کی برائیوں کو بیان کیا ہے۔

تضاد

"طلبِ دنیا اور مردانہ ہمت کا فلسفہ 
جیسے لفظوں کا استعمال نے شعر میں گہرائی پیدا کی ہے۔اور شعر کو خوبصورت بنانے دیا ہے۔

اردو شاعری کی تشریح اور معنی
ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں




Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...