Skip to main content

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی)

شعر


"دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا"



سیاق وسباق


یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔


مشکل الفاظ کے معنی 


باب نبرد/میدان جنگ
عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے
طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر


پس منظر 


اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔

یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔


فنی خوبیاں 

صنعت تضاد کا استعمال 
"دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا"
ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا
جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا 
ذکر ہے یعنی بہادری۔

طنزیہ لہجہ

 غالب شعر میں طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں غالب کمزور دل اور بے صبر عاشق پر تنقید کرتے ہیں اور صحیح معنوں میں عاشق کے لیے برداشت کی خوبی اپنانے کا کہتے ہیں 

تشبیہ کا استعمال 


عشق کو نبرد پیشہ کہنا خوبصورت تشبیہ ہے


فصاحت و بلاغت

غالب نے شعر میں عشق کا فلسفہ مختصر اور با اثر الفاظ میں بیان کیا ہے یہی غالب کا عظیم فن ہے۔انکو منفرد بناتا ہے۔

تشریح 


اس شعر میں غالب عشق میں بلند حوصلہ رکھنے کا کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عشق کرنا بے صبر اور کم حوصلہ مرد کا کام نہیں ہے غالب شعر میں عشق کوجنگ یعنی نبردسے تشبیہ دے کر ایک جنگ میں حوصلے جیسے حوصلہ رکھنے کا کہتے ہیں۔

غالب کہتے ہیں جو دھمکی سے مر گیا وہ نہایت پست حوصلہ مرد ہے وہ میدان عشق  کا مرد نہیں کیونکہ عشق ایک جنگ ہے اور اس کے لیے مکمل حوصلے اور برداشت کی ضرورت ہے۔




عشق مسلسل قربانی مانگتا ہے  اور ثابت قدم رہنے کا تقاضا کرتا ہے غالب نے اس شعر میں عشق کا فلسفہ مکمل بیان کر دیا ہے۔


🌿 Learn Urdu with Love 💚

Are you fascinated by Urdu — its beauty, poetry, and culture? 🌸
Now you can learn Urdu from beginner to advanced level with a professional native tutor online!

🎓 Whether you want to speak fluently, understand Urdu poetry, or communicate confidently, this is your chance to start learning in a fun and easy way.

💬 Get 30% OFF your first lesson on Preply using my referral link below 👇
👉 Discount of 30% for lessons on Preply. All subjects, all tutors.
https://preply.com/en/?pref=MTY5MjcyNTE=&id=1760961278.318523&ep=a1

🌍 Join students from the USA, UK, Canada, UAE, and many other countries who are already learning Urdu online.

💫 Start your Urdu journey today —
Because every beautiful word starts with a single lesson! ✨

#LearnUrdu #LanguageExchange #UrduTutor #OnlineLearning #PreplyTeacher




اردو شاعری کی تشریح اور معنی

ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:

  • اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
  • فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
  • فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
  • جون ایلیا کی اداس شاعری
  • داغ دہلوی کا رومانوی انداز

مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں







Comments

Popular posts from this blog

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...