Skip to main content

 بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا - مکمل تشریح، پس منظر اور فنی تجزیہ

بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا




مشکل الفاظ کے معنی 

بسکہ،چونکہ/اس لیے
اسیری،قید
آتش زیر پا/قدموں کے نیچے آگ ہونا یعنی جوش
موئے آتش دیدہ/آگ سے جلا ہوا بال 
حلقہ/کڑی،زنجیر کا حلقہ یا ڈور

پس منظر

یہ شعر مرزا غالب کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے مرزا غالب کی زندگی میں رونما ہو نے واقعات کو واضح کرتا ہے مرزا غالب کی زندگی میں قیدوبند کے واقعات کم ہی تھے لیکن مالی حالات اور اولاد کا نہ ہونا ان سب مسائل کو غالب قیدوبند کا نام کہہ رہے ہیں مطلب  شاعر اپنے ماندہ حالات  عشق،زنجیر،اور قید کی زنجیروں کو قید کی علامت کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

فنی خوبیاں


اس شعر میں شعری صنعت   صنعتِ مراعات النظیر کا استعمال کیا گیا ہے"آتش زیر پا" اور "موئے آتش دیدہ" میں لفظ "آتش" کا خوبصورت  استعمال  مراعات النظیر کی مثال ہے جس سے شعر با اثر معلوم ہوتا ہے۔

غالب کا تخیل بہت بلند ہے وہ زندگی کی قید کو اپنے تخلیق کردہ انداز میں بیان کر رہے ہیں جو قاری کے لئے نیا انداز ہے۔

زنجیر، آتش، مو، حلقہ – سب علامتی الفاظ ہیں جو جذبات اور انسان کی اندرونی کشمکش اور الجھنوں کو ظاہر کر رہے ہیں چونکہ شاعر زبان وبیان کے ماہر ہوتے ہیں اور جذبات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن غالب کا مقام دوسرے شعراء سے بہت بلند ہے اس لیے غالب کا بلند تخیل ان کے ہر شعر میں نظر آتا ہے۔

تشریح 


پہلے شعر "بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا" میں غالب کہتے ہیں کہ میں قید کی حالت میں ہوں اور با عزت اور پر وقار ہوں کہ جیسے میرے قدموں تلے آگ ہےجو پر جوش ہونے کی علامت ہے غالب خود کو عام قیدیوں سے ممیز کر رہے ہیں کہ میں عام قیدیوں کی طرح مایوس پرسان حال نہیں ہوں میرے جذبات بلند ہیں ۔اور پر جوش ہوں۔

"موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا"
دوسرے مصرعے میں غالب کہتے ہیں کہ میری قید کے لیے زنجیر کا حلقہ/کڑی بال کی طرح باریک ہےاور میرے جوش وجذبے سے جل چکا ہے غالب کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں اتنا عالی حوصلہ ہوں کہ مجھے زنجیر بال کی طرح محسوس ہوتی ہے جو 
میرے جوش وجذبے سے ٹوٹ کر جل جائے گی۔اس شعر میں غالب ز ندگی کے مشکل حالات میں بلند حوصلہ رکھنے کی تاکید کر رہے ہیں۔



اردو شاعری کی تشریح:  غالب کی غزل بسکہ ہوں غالب اسیری میں]

اس بلاگ میں ہم نے [بسک ہوں غالب اسیری میں] کی مشہور اردو شاعری کی تفصیلی تشریح اور معنی بیان کیے ہیں۔ اگر آپ اردو ادب، کلاسیکل شاعری، اور معروف شعرا کی تشریحات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمارے بلاگ کو فالو کریں۔

  • اردو شاعری کی وضاحت
  • شاعر کا ادبی پس منظر
  • شعر کا مکمل مفہوم اور تشریح

مزید اردو ادب کی تشریحات، اشعار کی گہرائی میں جانے کے لیے ہماری ویب سائٹ کا وزٹ کرتے رہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...