مرزا غالب کا شعر اور تشریح
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
عنوان
مرزا غالب کے اس شعر میں ہم شعر کی فنی خوبیوں گہرائیوں اور اس میں جو بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے آسان الفاظ میں سمجھیں گے۔
پس منظر
مرزا غالب ابتدا میں مشکل اشعار کہتے تھے زبان و بیان خالص اردو پر محیط تھا جس کی وجہ سے عوام الناس کو غالب کی شاعری سمجھنے میں مشکل ہوتی تھی لیکن شاعری میں بہترین مفہوم پنہا ں ہوتے تھے اور فلسفہ تھا
آہستہ آہستہ کچھ آسان گوئی کی طرف مائل ہوئے
یہ شعر مرزا غالب کے دیوان میں شروع میں رکھا گیا ہے۔یہ شعر واضح کرتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور سراسر فریب ہے۔اس کا وجود اور حقیقت کچھ اور ہے۔سب عارضی ہے
فنی خوبیاں
مرزا غالب کا اس شعر میں نقش فریادی کہنا ایک استعارہ ہے۔یعنی جو تصویرکو ایک مظلوم اور فریادی کو ظاہر کرتا ہے۔
شوخی تحریر کا لفظ استعمال کر کے غالب نے خوبصورت الفاظ میں مصوری کی بنیاد قرار دیا ہے۔
یہ شعر غالب کے انداز بیان اور گہرے فلسفے کی غمازی کرتا ہے۔شعر قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے
اور وہ دنیا اور اسکی حقیقت پر غوروفکر کرنے لگتا ہے۔
"نقش فریادی"، "شوخیٔ تحریر"، "کاغذی پیرہن" — ان تراکیب میں الفاظ کی روانی اور نرمی، شعر کو دلکش بناتی ہے۔
الفاظ کا بہترین انتخاب ،تراکیب اور غالب کا اچھوتا پن انکودوسرے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔
تشریح
غالب کہتے ہیں کہ ہر نقش یعنی تصویر کشی شوخ و دلفریب تحریر کی فریاد بن گیا ہے۔یعنی تصویریں جو خاموش اور بے جان ہوتی ہیں وہ بھی جذبات خیالات اور ایک الگ د نیا کا اظہار کرتی ہیں ایک کہانی اور الگ جہاں میں لے جاتی ہیں وہ عارضی ہیں ان کے رنگ اور کاغذ عارضی ہیں
اس شعر سے ہم یہ مطلب اخذ کر سکتے ہیں کہ اس دنیا کی ہر چیز خوبصورتی رنگا رنگی محض ایک فریب اور خیال کی حقیقت ہے اصلیت اور حقیقت سے کو سوں دور ہے۔
Comments
Post a Comment