Skip to main content

حسن کی بجلی سی شوخی – میر تقی میر کے شعر کی تشریح

 


شعر H1


جھمک سے اس کے بدن میں ہر ایک جا ہے شوخ

برنگِ برق سراپا وہ خود نما ہے شوخ


پڑے ہے سینکڑوں جا راہ چلنے میں اس کی

کسو کی آنکھ تو دیکھے کوئی بلا ہے شوخ








میر تقی میر کی شاعری کا پس منظر H2


یہ شعرمیر تقی میر کا ہے۔میر تقی میر کا شمار کلاسیکل شاعروں میں ہوتا ہے جو اردو ادب کا اہم دور تھا۔میرکی شاعری میں قدیم اردو زبان کے الفاظ ملتے ہیں جیسے کبھو یعنی کبھی  کسو یعنی کہ کسی۔اسی طرح مختلف اردو الفاظ ہیں۔

میر تقی میر کے دور میں دہلی اور لکھنئو اردو زبان وادب لے اہم مرکز تھے۔اور اس دور میں اردو پر فارسی زبان کے اثرات نمایاں تھے۔میر نے اردو شاعری کو ایک نیا انداز دیا حسن وعشق
انسانیت ،تصوف ،جذبات پر میر نے قلم اٹھایا۔

ان اشعار میں میر ایک ایسےایسے محبوب کا ذکر کر رہے ہیں جو حسن کا منبع ہےاس کی چمک اور خوبصورتی سے بجلی بھی ماند پڑ جائے میں محبوب کی چمک کو بجلی سے تشبیہ دی گئی ہے۔جو میر کے کلام کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔

مشکل الفاظ کے معنی H3


جھمک/چمکنا،چمکنے کی حالت

برنگ برق/برق مطلب بجلی،بجلی کے انداز میں،بجلی کی طرح 

خودنما/اپنے آپ کو دکھانے والا،مطلب اپنی نمائش کرنے والا

کسو/کسی
قدیم اردو کا لفظ

بلا/آفت،مصیبت


تشریح H4


جھمک سے اس کے بدن میں ہر ایک جا ہے شوخ
برنگِ برق سراپا وہ خود نما ہے شوخ

پہلے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب اس قدر حسین اور خو بصورت ہے کہ اس کے بدن میں ایک عجیب سی شوخی اور بناوٹ ہے جو اسے سب سے حسین اور منفرد بناتی
ہے۔
اس کی خوبصورتی جھمک یعنی چمک کی طرح نظر آرہی ہے اور روشن ہے۔
شاعر کہتاہے کہ محبوب کا جسم بجلی کی طرح روشن ہےجس میں روشنی ہے خطرہ بھی ہےاور ایک غیر معمولی کشش ہے جو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
میر کہتے ہیں کہ میرا محبوب اس قدر حسین ہے جیسے خدا نے اسے خود نمائی کے لیے بنایا ہو۔

پڑے ہے سینکڑوں جا راہ چلنے میں اس کی
کسو کی آنکھ تو دیکھے کوئی بلا ہے شوخ


دوسرے شعر میں شاعر محبوب کے حسن کی مزید تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محبوب کی چال ڈھال اور ادا اس طرح حسین ہے کہ راہ چلتے لوگ اسے رک کر دیکھتے ہیں اور اپنا دل ہار بیٹھتے ہیں۔
شاعر کہتا ہے کہ اگر کسی کو اسے دیکھنے کا موقع ملے توجہ حیران ہو کر خود کہے گا کہ یہ حسن کی بلا اور مجسمہ ہے۔کوئی اس کے حسن کے جادو سے بچ نہیں سکتا۔

فنی خوبیاں H5


تشبیہ کا استعمال 


شاعر نے محبوب کے بدن کی خوبصورتی اور جمال کو برق یعنی کہ بجلی سے تشبیہ دی ہے۔

استعارے کا استعمال 


دوسرے مصرعے میں محبوب کو "بلا" کہا گیا ہے۔

> "کوئی بلا ہے شوخ"
یہاں بلا محض ایک لفظ نہیں بلکہ شدتِ حسن، طاقت اور دل لبھانے والی خطرناک کشش کا استعارہ ہے۔
میر نے محبوب کی خوبصورتی کے لیے بہترین استعاروں کا استعمال کیا ہے۔

سراپا نگاری بیان کرنا


مطلب پورے جسم اور چال ڈھال کی تعریف کرنا میر نے ولی دکنی کی طرح 
محبوب کے جسم کی تعریف کی ہے۔

لفظی خوبصورتی/موسیقیت پیدا کرنا


جیسے "جھمک"، "برق"، "بلا"، "شوخ"۔ یہ الفاظ خود میں صوتی حسن رکھتے ہیں۔
جو بولنے میں قاری کو خوبصورت لگتے ہیں۔


اردو شاعری کی تشریح اور معنی 



ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔

















Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...