Skip to main content

عنوان: مرزا غالب کی منقبتِ حیدری – حضرت علیؑ کی شان میں الفاظ کا گلزار

 قصیدہ /منقبت حیدری


اشعار:H1


سازِ یک ذرّہ نہیں فیضِ چمن سے بیکار

سایۂ لالۂ بےداغ سویدائے بہار


مستیٔ بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزه

ریزہ شیشۂ مے جوہرِ تیغِ کہسار






سیاق وسباق H2


یہ مرزا غالب کی منقبت حیدری کے اشعار ہیں۔حضرت علی پر اردو شاعری جو کی گئی ہے اس میں یہ بلند مقام رکھتے ہیں۔غالب کی مذہبی شاعری اور فلسفیانہ شاعری اردو ادب میں منفرد مقام رکھتی ہے۔اردو ادب میں منقبت لکھی گئی ہیں لیکن غالب نے جس شخصیت پر منقبت لکھی وہ انتہائی مقبول ہوئیں۔

یہ اشعار حضرت علی کی شان وعظمت  میں لکھے گئے ہیں 
اس منقبت غالب نے مولا علی رض کی  علمی سر بلندی کا ذکر کیا ہے بلکہ حضرت علی رض کو امت مسلمہ کے لیے ایک روحانی سر چشمہ قرار دیا ہے۔
کیونکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم  نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے"

مرزا غالب نے ان اشعار میں بلند پایہ تشبیہات اور استعاروں کا استعمال کر کےمولا علی رض کی عظمت و مرتبے کو بیان کیا ہے۔


مشکل الفاظ کے آسان معنیH3


ساز/آہنگ ،دھن،ایک تاثیر اور لے

یک ذرہ/ایک چھوٹا سا ذرہ

فیض چمن/چمن کا مطلب باغ ،غالب کی خوبصورت تشبیہ مطلب باغ کی برکت /فیض 

بے داغ/بغیر داغ کے یعنی کہ پاکیزہ

سویدا/دل کی بات یعنی دل کی گہرائی،دل کی حقیقت

باد صبا/صبح کی ہوا

عرض سبزہ/سبزہ کا میدان یعنی سبزے کی جگہ

ریزہ شیشہ مے/مے یعنی شراب،یعنی شراب کی بوتل کے شیشے کا ٹوٹا ہوا ذرہ

جوہر تیغ کہسار/تیغ مطلب تلواریں کا مطلب پہاڑ،پہاڑ جیسی تلوار کا کمال و جوہر





آسان تشریح H4


پہلا شعر 



سازِ یک ذرّہ نہیں فیضِ چمن سے بیکار
سایۂ لالۂ بےداغ سویدائے بہار

یہ قصیدہ/منقبت حضرت علی رض کی شان میں غالب نے لکھا ہے۔غالب نے قدرتی مناظر کو تشبیہات میں استعمال کر کے ان کی عظمت کو بیان کیا ہے 
وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا کا ہر ذرہ مولا علی شیر خدا کے فیض سے محروم نہیں۔مولا علی رض مشکل کشا ہیں ان کے فیض سے کئی غیر مسلم مسلمان ہوئے۔
مولا علی رض کی ذات خلقت کے لیے سراسر نور ہے
ایک پاکیزہ لالے کا سایہ بھی بہار کے دل کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے۔علی رض  کی محبت ایمان کی نشانی ہے۔


 شاعر ناجی شاکر مولا علی کی محبت میں کہتے ہیں 

محبت میں علی کی دیکھ ناجی
ہوا ہے دل میرا حیدر آباد

دوسرا شعر


مستیٔ بادِ صبا سے ہے بہ  عرض سبزه
ریزہ شیشۂ مے جوہرِ تیغِ کہسار


غالب فرماتے ہیں کہ سبزہ باد صباء کی خوشبو 
اور مستی سے جھوم رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ علی رض کی محبت اور عقیدت میں جھوم رہا ہو۔
یعنی ہر چیز کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے ہونے کی خوشی منا رہا ہو۔

غالب نے چھوٹی چھوٹی اور باریک تشبیہات اور استعاروں کے ذریعے مولا علی کی شان کو بیان کیا ہے۔

کہتے ہیں کہ ایک شراب کے شیشے کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا بھیپہاڑ جیسی تلوار کے جوہر کی طرح چمکتا ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ مولا علی رض کے فیض اور نظر کرم سے معمولی چیزیں بھی قیمتی بن جاتی ہیں اور جھوم اٹھتی ہیں۔


فنی خوبیاں H5


مرزا غالب نے قصیدے میں مولا علی کی شان کو بیان کرنے کے لیے تشبیہ اور استعاروں کا زبردست اور خوبصورت استعمال کیا ہے جیسے"ریزہ شیشۂ مے" کو "تیغِ کہسار" سے تشبیہ دینا۔


خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے جیسے باغ ،سبزہ ،لالہ زار ایسے خوبصورت الفاظ ہیں جو قاری کے ذہن میں ایک منظر بنا دیتے ہیں۔

اشعار میں حضرت علی رض کی شخصیت کوکائنات کے لیے فیض کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس سے کائنات کا ذرہ ذرہ اور پتا پتا مستفید ہو رہا ہے۔


غالب کی زبان میں سلاست اور روانی ہے اور الفاظ کا بڑا ذخیرہ ہےجو قاری کو ان کے اشعار میں جکڑ کر رکھ دیتا ہے۔


ان اشعار صوفیانہ زاویے سے حضرت علی رض کی شان بیان کی گئی ہے۔


اردو شاعری کی تشریح اور معنی
ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں










Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...