Skip to main content

"غالب کی شاعری میں چمن سے بیزاری: ایک فکری و فنی جائزہ"

 


شعر:H1


نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا


محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا





سیاق وسباق H2


یہ شعر مرزا غالب کا ہے۔مرزا غالب کے مشکل اشعار کو سمجھنا ہر قاری کے لیے آسان نہیں۔یہ شعر غالب کے فلسفیانہ انداز میں سے ایک ہے۔اس شعر میں غالب کی محبت اور بیزاری اور دنیا سے بیزاری کا ذکر ہے۔

یہ شعر غالب کے اس دور کی عکاسی ہے جب وہ زندگی سے بیزار ہو چکے تھے اور ہر چیز سے فرار چاہتے تھے۔دہلی شہر کا زوال 1857 کی جنگ آزادی اور اس کے برے آثار اور 
غالب کی ذاتی زندگی کی کشمکش اور الجھنوں کی ترجمانی کر رہا ہے اور غالب مکمل بیزار ہو چکے ہیں۔

غالب دنیا اور معاشرے سے غیر معمولی محبت رکھتے تھے غالب کے گھر کے سامنے لا وارث اور معذور لوگ پڑے رہتے تھے اور غالب ان کا حسب توفیق خیال رکھتے تھے۔لیکن اس شعر میں غالب دنیا سے بیزاری کا ذکر کر رہے ہیں۔مگر اب یہ حالت زار ہے کہ خوشبو اور نرمی بھی 
غالب کے لیے باعث تکلیف ہے۔


مشکل الفاظ کے معانی H3


یک بیاباں ماندگی /بے حد تھکن کا احساس جیسے صحرا میں سفر طے کیا ہو

حباب/بلبلہ  ،پانی کا بلبلہ

موجہ رفتار/رفتار کی لہر

نقش قدم/قدموں کے نشان

بے دماغی/بے چینی،الجھن محسوس کرنا


ناک میں دم آنا/پریشان ہونا،کسی چیز سے تنگ آجانا


موج بوئے گل/پھولوں کی خوشبو،یعنی خوشبو کی لہر



تشریح:H4



پہلا شعر:


نہ ہوگا "یک بیاباں ماندگی" سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

غالب اس شعر میں دنیا اور اس کی ہر چیز سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میرے جوش و جذبے میں تھکن اور اکتاہٹ آجائے تب بھی میرے ذوق و شوق اور لگن میں کمی نہیں آئے گی۔اور میں نہیں تھکوں گا۔غالب کے مطابق ایسی تھکن جو صحرا کا سفر کرنے والے کو ہوتی ہے مجھے ویسی تھکن بھی ہو تو بھی میرا حوصلہ بلند رہے گا۔
میرے قدموں کے نشان اس طرح ہیں جیسے رفتار کی لہر پر تیرتے ہوئے پانی کے بلبلے جو کہ ناپائیدار ہوتے ہیں ختم ہو جانے والے ،لیکن مسلسل حرکت میں ہوتے ہیں۔



دوسرا شعر:


> محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

غالب کہتے ہیں کہ مجھے پے دنیا،حسن فطرت اور اس کی ہر چیز سے محبت تھی اور اس میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن اب میری طبیعت اس سے یعنی دنیا سے بیزار ہو گئی ہےمجھ میں ایسی بے چینی اور اکتاہٹ ہے کہ پھول کی خوشبو اور نرمی بھی مجھے پریشان اور بے چین کر دیتی ہے۔غالب کا مزاج بہت اکتاہٹ اور دنیا سے بیزاری ہے اور غالب خوبصورت تشبیہات سے اس کا اظہار کر رہے ہیں کہ قاری حیران ہو جاتا ہے۔


فنی خوبیاں H5


تمثیل کا استعمال کیا گیا ہے جیسے رفتار کی موج،جیسے نقش قدم جیسے لفظ کوحباب سے تشبیہ دینا ،غالب نئے لفظوں کا استعمال کرتے تھے۔

استعارہ


چمن کو دنیا یا معاشرے کے طور پر پیش کیا گیا ہے چمن یعنی دنیا
موج بوئے گل  کا مطلب زندگی کی خوبصورتی اور نرمی و بیان کرنا

تضاد

شعر میں تضاد پایا گیا ہے جیسے پہلے محبت تھی پھر بے دماغی اور اکتاہٹ  ،تضاد کا استعمال ہے۔

ایجاز و بلاغت/فصاحت و بلاغت 


غالب نے ایجازو بلاغت سے کام لیا ہے جیسے کم الفاظ میں بڑی اور گہری بات کہنا۔

تصوف کا رنگ

غالب کے شعر میں تصوف کا رنگ نظر آتا ہے غالب کی شاعری میں تصوف اکثر دکھتا ہے۔ادبی شعر میں دنیا سے بیزاری اور اور تھکن تصوف کی علامت ہے۔


اردو شاعری کی تشریح اور معنی
ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں












Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...