Skip to main content

"لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذبِ عشق" — میر کے اشعار میں بے وفائی اور عشق کا المیہ

 

شعرH1

لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذب عشق

جس بے وفا کو نام سے بھی میرے ننگ تھا

 

دیکھا ہے صید گہ میں ترے صید کا جگر

تاآنکہ چھن رہا تھا پہ ذوق خدنگ تھا


میر تقی میر لکھنوی تخت پر بیٹھے ہیں،میر کے مشہور زمانہ شعر کی تشریح ملاحظہ فرمائیں
"یہ کلاسیکی طرز کی پینٹنگ مشہور اردو شاعر میر تقی میر کو لکھنوی طرزِ امارت میں ایک تخت پر بیٹھے دکھاتی ہے۔ آس پاس اہلِ سخن اور اہلِ ذوق براجمان ہیں۔ تصویر میں ماضی کی تہذیب، شاعری کی محفل اور میر کی داخلیت کا حسین امتزاج پیش کیا گیا ہے۔"


سیاق وسباقH2 

میر تقی میر اردو شاعری کے دبستان لکھنئو کے بانی ہیں۔میر کی شاعری میں چھپا درد وکرب ان کی پہچان ہے۔میر کی زندگی دردوالم کی تصویر تھی۔میر کی غزل میں عشق ایک رومانوی جذبہ نہیں بلکہ یہ روحانی تعلق ہے جس کا تعلق روح سے ہے۔میر کے کلام میں محبوب کی غفلت بے رخی اور بے اعتنائی عشق کے مشکل مراحل کا ذکر نہایت حقیقی معنوں میں ملتا ہے۔تو کہیں محبوب کی بے وفائی اور عاشق کی بے بسی کا عنوان باندھتے نظر آتے ہیں۔

ان اشعار میں میر نے عاشق کا محبوب پر جاں نچھاور کرنا اور وفا کرنا تو دوسری جانب محبوب کی سنگدلی اور کٹھور طبیعت کا ذکر کیا ہے کہ محبوب کسی صورت عاشق پر مہربان نہیں ہوتا۔
شعر میں دو منظر میر نے پیش کیے ہیں ایک قبر کے بعد کی ملاقات دوسرا شکار گاہ کا خوفناک منظر کی تصویر کشی۔میر نے بہترین انداز میں تصویر کشی ان مناظر کی پیش کی ہے۔

مشکل الفاظ کے آسان معنیH3 


جذب عشق/عشق کا جذبہ،مطلب عشق کی کشش یا کھچاو ہونا

ننگ/شرمندگی یا ذلت محسوس کرنا 

صید گہ/شکار کی جگہ

جگر/دل ،حوصلہ یعنی دل بڑا کرنا

چھن رہا/مطلب کانپنا

خدنگ/تیز ہونا

ذوق خدنگ/تیر مارنے کا شوق،تیر چلانے کا شوق ہونا

تشریح H4 


شعر 1:

لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذب عشق
جس بے وفا کو نام سے بھی میرے ننگ تھا

اس شعر میں میر کہتے ہیں کہ محبوب میری طرف نگاہ کرنا تو پرے کی بات ہے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتا تھا طعنے دیتا تھاوہی میرا محبوب اب میری قبر پر آکر کھڑا ہے اس صورت حال کو مومن خاں 
مومن شعر میں بیان کرتے ہیں 

وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے

شاعر کہتا ہے کہ محبوب بے وفا مرنے کے بعد میری قبر پر آیا ہےیہ میری محبت اور جذبات عشق کی کشش تھی جو اسے کھینچ لائی اسے زندگی میں میرا احساس نہ تھا تو مر نے کے بعد 
تو وہ فرط جذبات میں قبر تک آپہنچا۔
یہ ایک قسم کاعاشق کا محبوب پر طنزبھی ہے اور دکھ بھرے احساس بھی شامل ہے کہ محبوب کو مرنے کے بعد میرا احساس ہوا پر اب بے سود۔

شعر 2:

دیکھا ہے صید گہ میں ترے صید کا جگر
تاآنکہ چھن رہا تھا، پہ ذوقِ خدنگ تھا

اس شعر میں میر نے ایک منظرکشی کی ہے وہ یہ کہ محبوب کو شکاری اور عاشق کو شکار کی شکل میں پیش کیا ہے۔شاعر کہتا ہے کہ عاشق محبوب کی محبت میں مسلسل تڑپ رہا ہے جذبات بے قابو ہیں کہتا ہے کہ میں نے تیری شکار گاہ میں تیرے شکار یعنی خود عاشق کی حالت زار کو دیکھا ہے کہ وہ خوف سے کانپ رہا تھا خوف سے بے حال تھا اس کی آخری سانس شاید اٹکی ہوئی تھی لیکن تمہیں یعنی کہ محبوب کو تیر چلانے کا شوق تھاتیر چلا دیا اوراس کی کیفیت کی بالکل چنداں پرواہ نہ کی۔

شاعر نے محبوب کی بے حسی اور ظلم اور عاشق کی بے بسی اور نامرادی کو درد ناک صورت میں پیش کیا ہے۔

فنی خوبیاںH5


شکار اور شکاری کا استعمال استعارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

صنعت تضاد کا استعمال ہے یعنی زندگی میں نفرت حقارت مر نے کے بعدمحبت

تصویر کشی یا منظر کشی کی گئی ہےدوسرے شعر میں۔

دہری معنی یعنی دو مطلب: "ننگ"، "ذوق" اور "خدنگ" جیسے الفاظ کئی جہات مطلب رکھتے ہیں


اردو شاعری کی تشریح اور معنی 



ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔

























 

Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...