Skip to main content

عشق میں ناکامی، محبوب کی بے نیازی، اور عاشق کی بے قراری

 

شعر:H1


گذرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا


آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں

مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا






سیاق وسباق H2


یہ شعر میر تقی میر کا ہے۔اردو ادب میں میر تقی میر کے درد بھرے  اشعار معروف ہیں کیونکہ میر کی زندگی دکھوں اور آزمائشوں کا مجموعہ تھی۔عشق میں بے قراری پر میر کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔اس شعر میں میر کا سوز اور درد بھرا لہجہ سامنے آتا ہے۔اس شعر میں جذبات عشق محبوب کی لا واہی اور عاشق کی ناکامی اور بے بسی کو نہایت حقیقی اور بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔شاعر کے نزدیک آسمان بے حسی کا منظر دکھا رہا ہےاور دوسری طرف محبوب کی مسلسل عدم توجہی اور لا پرواہی کا گلہ کر رہا ہے 


مشکل الفاظ کے معنیH3


چرخ/یعنی آسمان اور تقدیر 

نالہ پگاہ/روانی سے اور مسلسل رونا،آہ وزاری کرنا

خانہ خراب/تباہ حال ، براحال 

صرفہ/قدروقیمت ہونا یعنی اہمیت دینا،وقت دینا


تشریح:H4


پہلا مصرع: "گذرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا"

شاعر کہتا ہے میرے رونے سے درد سے آہیں بھرنے سے آسمان کو کوئی فرق نہیں پڑتا میری فریادیں اس پر کوئی اثر نہیں کرتیں میری چیخ و پکا ر بیکار ہے۔


دوسرا مصرع: "خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا
شاعر کہتا ہے کہ میرے دل نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا اس کی بے مروت چاہتیں اور عشق ومحبت کی وجہ سے میری زندگی اجیرن اور گھٹن والی ہو گئی ہے۔یعنی میں خانہ خراب ہو چکا ہوں۔مطلب بد قسمت۔

تیسرا مصرع: "آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں"

میر کہتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کے سامنے جان دے رہا ہوں اور میرے محبوب کو ذرہ برابر پرواہ نہیں میری موت بھی اس کا دل میرے لیے نرم نہیں کر سکی۔اور وہ پھر بھی میری طرف توجہ نہیں کرتا دیکھتا تک نہیں۔میر محبوب کی لا پرواہی کو خوبصورت انداز میں بیان کر رہے ہیں۔


چوتھا مصرع: "مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا"

شاعر اس شعر میں صحیح 
معنوں میں عاشق کے جذبات کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔اور کہتےہیں کہ مجھے محبوب کی ایک نظر کرم کافی ہے کہ وہ مجھے دیکھ لباس کی ایک نگاہ مجھے نئی زندگی دے سکتی ہے۔لیکن میرا محبوب اس قدر بے رحم ہے کہ مجھے ایک نظر کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔


فنی خوبیاں

میر نے اس شعر میں تشبیہ واستعارے کا استعمال کیا ہے "نالہ پگاہ کا" اور "صرفۂ نگاہ" جیسے استعاراتی الفاظ استعمال کرکے جذبات کو خوبصورت اور پراثر انداز میں بیان کیا ہے۔میر دکھ اور جذبات کا گہرا اظہار بیان کرتے تھے۔

محاورے کا استعمال کرنا


میر نے محاوروں کا استعمال کیا ہے جیسے"خانہ خراب ہو جیو" اور "صرفۂ نگاہ"
جیسے الفاظ میر کے کلاسیکل انداز کو بہترین طریقے سے بیان کر رہے ہیں۔

منظر کشی 


میر نے جذبات کے اظہار کی منظر کشی بھرپور انداز میں کی ہے کہ قاری محو ہو جاتا ہے
"آنکھوں میں جی مرنا" اور "صرفۂ نگاہ" پڑھنے والے کے ذہن میں ایک منظر بناتے ہیں۔
کہ گویا حقیقت ہے۔

میر کی سادگی والااندازاور بات کی گہرائی 


شعر میں میر کا انداز زیادہ پیچیدہ نہیں۔میر کے سادہ الفاظ اور زبان کی روانی نے شعر میں ایک سحر پیدا کر دیا ہے اور بھرپور کلاسیکل انداز کی عکاسی نظر آتی ہے۔گہرے جذبات کو سادہ الفاظ میں خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔


اردو شاعری کی تشریح اور معنی

ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں















Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...