Skip to main content

"اپنے ہوتے تو با عتاب رہا: میر کی نازک مزاجی اور شکستہ دل کا بیانیہ"

 

شعر H1

اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا

ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا





سیاق و سباق H2

یہ خدائے سخن میر تقی میر کا شعر ہےکلاسیکی اردو شاعری کی روایت میر نے ڈالی۔میر تقی میر کی شاعری کا عہد اٹھارویں صدی عیسوی کا دور ہے۔اردو شاعری کا تاریخی پس منظر ہم دیکھیں تو میر تقی میر کی شاعری بھرپور کلاسیکل انداز رکھے ہوئے ہے اور لکھنوی انداز ہے۔
میر تقی میر کے کلام کی خصوصیات  میں میر کے اشعار میں رنج و الم ایک خاص انداز میں ملتا ہے میر بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے اور وہیں سے ان کے رنج و الم کا آغاز شروع ہو تا ہے اس کے بعد سوتیلے بھائیوں کا ناروا سلوک،دلی کی تباہی،پے در پے مشکلات اور آزمائشوں نے میر کو توڑ کر رکھ دیا۔میر کی جوان بیٹی کی موت اور بیوی کا دنیا سے چلے جانا ان سب غموں نے میر پر غموں کا پہاڑ توڑ کر رکھ دیا۔

میر کی غزل میں عاشق کا کردار اور خوشی کا ذکر ملتا ہے یعنی میر کی غزل میں عاشق محبوب سے صرف بھیک کی محبت کا طلبگار نہیں بلکہ وہ عزت کا بھی طلبگار ہے۔

اس شعر میں میر واضح کرتے ہیں کہ محبت صرف جذباتی وابستگی کا نام نہیں بلکہ یہ شخصی وقار اور عزت نفس بھی 
چاہتی ہے۔۔قیاس ہے کہ یہ غزل میر نے تب لکھی ہو جب انکو محبت میں ذلت ورسوائی کا سامنا
 کرنا پڑا  اور انہوں نےوہ گہرے 
جذبات اپنی غزل میں بیان کیے ہیں۔

مشکل الفاظ کے معنی  H3


با عتاب/یعنی ناراضگی سے یا کرخت یعنی سخت لہجہ

بے دماغی/بے عزت ہونا یعنی بے وقعت ہونا کوئی قیمتی نہ ہونا

باخطاب/مخاطب ہونے والا

ملتفت/التفات کرنے والا یعنی توجہ دینے والا

ناکسی/حقیر سمجھنا،بے قدری ،ذلت آمیز

حجاب/پردہ

تشریح H4


اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
بے دماغی سے با خطاب رہا

پہلے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ محبوب جب ہمارا تھا توہمیشہ خفگی ناراضی کا اظہار کرتا تھا کبھی بھی مجھ پر محبت آمیز نظر نہیں ڈالی نہ کسی معاملے میں اچھا سلوک کیامیں محبت کو ترستا رہا لیکن جب اسکی محبت اور توجہ حاصل ہوئی تو کمتر سمجھا گیا اور بے عزت کرنے والے الفاظ سے مخاطب کیا گیا یعنی طنز کے نشتر چلائے گئے ۔یعنی مجھے محبت بھیک میں دی گئی۔اس شعر میں شاعر محبت میں خودداری اور عزت نفس کی بات کر رہا ہے۔


کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا
ناکسی سے ہمیں حجاب رہا

دوسرے شعر میں میر کہتے ہیں کہ جب محبوب نے بے پردہ ہو کر مجھ پر توجہ کی تو وہ ایسی تھی کہ جس سے میری عزت نفس مجروح ہو۔محبوب کی ایسی طنز آمیز توجہ سے شاعر نےعزت نفس کو اہمیت دی۔

اس شعر میں یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ ایک سچا عاشق صرف محبت کے دو بول کا طلبگار نہیں ہوتا اسے عزت کی طلب بھی ہوتی ہے۔کیونکہ عزت کے بغیر محبت کا کوئی وجود نہیں۔

میر کی شاعری میں محبت اور خودی عزت نفس کا ذکر بارہا ملتا ہے۔

شعر کی فنی خوبیاںH5


مختصر مگر جامع


میر نے مختصر الفاظ میں با معنی بات کہی ہے۔


سوزوگداز/فصاحت وبلاغت


میر کے لہجے میں درد اور جذبات کا سمندر ہے جو ان کے الفاظ میں نظر آتا ہے میر کے انداز میں اس شعر میں فصاحت و بلاغت ہے۔

حسن تعلیل


اس شعر میں حجاب کی وجہ سے ناکسی بنائی گئی جو ایک خوبصورت حسن تعلیل ہے۔

صوتی مشابہت ہونا


خطاب" اور "با عتاب" الفاظ میں صوتی مشابہت اور معنی کی گہرائی پائی جاتی ہے۔جو شعر کی خوبصورتی بڑھا رہے ہیں اور شعر کو با معنی کر دیا ہے۔

اردو شاعری کی تشریح اور معنی

ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔













Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...