شعر:H1
غالبؔ چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب ماہ تاب میں
![]() |
| مرزا غالب دوست و احباب کے ساتھ مل کر شراب نوشی کرتے ہوئے ایک خیالی منظر |
شاعر کا تعارف
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خان تھامرزا نوشہ کے نام سے مشہور تھے (کثرت شراب نوشی کی وجہ سے مرزا نوشہ کے نام سے مشہور ہو گئے) تخلص پہلے اسد تھا بعد میں غالب تخلص رکھا اور تا حیات یہی رہا یہ تمام خطابات آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے دیے تھے۔
سیاق و سباق H2
یہ شعر مرزا غالب کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔غالب مے نوشی یعنی شراب نوشی کثرت سے کرتے تھے اور جوے کی بھی عادت تھی جس کی وجہ سے غالب کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔
غالب کی شراب نوشی سے ان کے تمام احباب واقف تھے۔
مرزا غالب کے دور میں شاعری میں شراب کا ذکر کرنا ایک معمولی اور عام بات تھی۔استعارے کے طور پر شراب نوشی کا ذکر کیا جا تا تھا
یہ شعر مرزاغالب کی اخیر عمر کو بیان کرتا ہے جس میں غالب شراب نوشی بہت کم یا ترک کر چکے تھے فقط خاص موقعوں پر نوش کیا کرتے تھے
اس شعر میں فقط شراب چھوڑنے کا ذکر نہیں بلکہ ایک شاعر کی جذباتی کیفیت،فطری موسم سے محبت اور ان سے لطف اندوز ہونے اور زندگی کے دردو الم اور ماضی کے واقعات کو بھلانے کی ایک کوشش شامل ہےجو شراب پی کر تنہائی اور اداسی کو دور کرنا ہے۔
اور غموں سے فرار ہونے کی ایک کوشش ہے۔
مشکل الفاظ کے معنی H3
چھٹی شراب/مطلب شراب چھوڑ دینا یا کوئی عادت ترک کر دینا چھوڑ دینا
روز ابر/مطلب بادلوں والا دن عام دن سے مختلف یا بارش کا دن
شب ماہ تاب/مراد چاندنی رات جس میں چاند کی روشنی پھیلی ہوتی
کبھی کبھی/گاہے بگاہے
تشریح H4
مرزا غالب کثرت سے شراب نوشی کرتے تھے اور ان کی بیگم امراو بیگم ان کی اس عادت سے تنگ آوٹ پریشان تھیں اور ایک مذہبی عورت تھیں۔
اس شعر میں غالب نے اپنی شراب نوشی کو ایک حساس شاعر اور انسان لے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے غموں اور زندگی کی آزمائشوں سے تنگ آکر شراب پی کر اس میں کچھ سکون حاصل کرتا ہےاور ماضی کو بھولنا چاہتا ہے۔اس شعر میں غالب فرماتے ہیں کہ اب وہ شراب نہیں پیتے بلکہ بالکل ترک کر چکے ہیں لیکن خاص موقعوں پر یا رومانوی موسم میں جیسے ابر آلود دن یعنی بادلوں والے دن نوش کرتے ہیں۔
یا شب مہتاب یعنی چاندنی راتیں جو خوبصورت راتیں ہوتی ہیں اس میں شراب پیتے ہیں۔
فنی خوبیاں H5
استعارہ
شعر میں شراب کا ذکر ایک مادی چیز کے طور پر نہیں کیا گیا بلکہ یہ یادوں اور جذبات کا استعارہ ہے
رومانوی اور فطری احساس
"ابر" اور "ماہتاب" جیسے قدرتی مناظر کو رومانوی احساسات کے طور پر پیش کیا گیا ہےجو ایک حساس طبیعت انسان کی نشانی ہے۔
الفاظ میں سادگی اور روانی
شعر میں شاعر نے سادہ زبان استعمال کی ہے لیکن زبان میں روانی اور فصاحت وبلاغت ہے۔جو غالب کی منفرد خصوصیت ہے۔
خود پر طنز اور مزاح اور اپنی حقیقت بیان کرنا
غالب شعر میں ایک قسم کا طنز خود پر کر رہے ہیں اور مزاح بھی شامل ہے یعنی میں شراب ترک کر چکا ہوں لیکن خاص موقعوں اور دنوں میں پی لیتا ہوں۔
غالب کا مزاح غیر معمولی تھا اس بات سے سبھی قاری واقف ہوں گے۔
خود کلامی
غالب شعر میں خود سے مخاطب ہیں خود کلامی کر رہے ہیں جیسےغالب چھٹی شراب۔۔۔
اردو شاعری کی تشریح اور معنی
ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔
اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔

Comments
Post a Comment