Skip to main content

"شرم، رسوائی اور پردہ داری: غالب کا پردہ ہائے ہائے کا المیہ شعر"

 


شعر:H1


شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں

ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

— مرزا غالب


مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح


سیاق وسباق H2


مرزا غالب نے اپنی شاعری میں عشق کے تمام عنوان باندھے ہیں مطلب عشق کی ہر کیفیت کو بیان کیا ہے محبوب اور عاشق کے جذبات کی سب کیفیات بیان کی ہیں۔
اس شعر میں غالب نے عاشق کی بے بسی مجبوری ،رسوائی اور تکالیف کو بیان کیا ہے۔غالب نے سچے عاشق کو عشق کی راہ میں پیش آنے والی تکلیفوں اور آزمائشوں کی تصویر کشی بہترین انداز میں کی ہے۔
عاشق رسوائی کے ڈر سے منہ چھپائے پھرتا ہے اور بدنامی وطعنوں سے چھپتا ہے۔
اور ان مصائب اور رسوائیوں پر موت کو فوقیت دیتا ہے۔


مشکل الفاظ کے معنی H3


نقاب خاک/مٹی کا پردہ مطلب چھپنا،مر جانا

پردہ داری/عشق کو چھپانا،رازداری رکھنا

الفت/محبت

تشریح:H4


"شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں"

اس مصرعے میں عاشق کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جو بدنامی اور رسوائی کے ڈر سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے ۔رسوائی جو عاشق کا مقدر ہوتی ہے عاشق اس رسوائی اور بدنامی سے تنگ آکر مرنے کو آسان سمجھتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد یہ بدنامی ختم ہو جائے گی۔

"ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے"

کہا جاتا ہے کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے یہ ظاہر ہو کر رہتے ہیں اور جب عشق ظاہر ہو جائے تو بدنامی اور رسوائی عاشق کا مقدر بن جاتی ہے جو قبر تک عاشق کے ساتھ رہتی ہے۔
دوسرے مصرعے میں شاعر اس بات پر افسوس و ملال کر رہا ہے کہ اب عشق کو چھپائے رکھنا اس کی پردہ داری کرنا اب ممکن نہیں رہا اب اس کو حیلے بہانے سے چھپایا نہیں جا سکتا۔۔عشق و محبت اب ظاہر ہو چکی ہےاور عزت لوگوں کی نظروں میں جا چکی ہےاب اس عزت کو واپس لانا قائم رکھنا نا ممکن ہے۔
"ہائے ہائے" ایک گہرا درد اور بےبسی کا اظہار ہے
شاعر کہتا ہے عشق نے رسوائی اور تکالیف کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

فنی خوبیاں H5


تشبیہ و استعارے کا استعمال 

شعر میں نقاب خاک موت اور قبر کا استعارہ ہے مٹی کو پردہ کہا گیا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ عاشق اب تنگ آکر زمین میں چھپ جانے کو اپنے لیے سکوں کا باعث سمجھتا ہے۔


علامت نگاری کا استعمال 

نقاب ،خاک ،پردہ داری شعر میں ان الفاظ کا علامتی استعمال کیا گیا ہے جو گہری معنویت رکھتے ہیں اور الفاظ کا انتخاب قاری کو حیران کر دیتا ہے۔

افسوس کا انداز

شعر میں ہائے ہائے عشق کی بے بسی اور درد کی شدت کو بیان کرتا ہے جس سے عاشق مکمل درد سے بیزاری اور تکلیف کا اظہار کر رہا ہے۔

ردیف اور قافیہ کے ذریعے شعر میں حسن

ردیف: "ہائے ہائے"
یہ ردیف شعر میں دردناک تاثر پیدا کرتی ہے اور قاری کو ایک گہری سانس لینے پر مجبور کرتی ہے۔
اور قاری شعر پڑھ کر ان سب کیفیات کو محسوس کرنے لگتا ہے۔


اردو شاعری کی تشریح اور معنی 



ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔









Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...