Skip to main content

Posts

Showing posts from April, 2025
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...
 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...
 میر تقی میر کی اردو شاعری میں محبت اور وفا کا پس منظر اس عہد میں الہی محبت کو کیا ہوا  چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا  عنوان H1 یہ شعر میر تقی میر کا ہے اس بلاگ میں میر تقی میر کے شعر کی آسان تشریح سمجھائی گئی ہے میر باکمال شاعر تھے۔ محبت،وفا،عشق جو تقاضا کرتے ہیں میر اس کو وا ضح کر رہے ہیں۔ محبت،وفا،اور مروت کے فقدان کا اظہار اس شعر میں میر  تقی میر نے کیا ہے سادا اور بااثر انداز میں۔ پس منظر  H2 یہ شعر موجودہ حالات کی نشاندہی کر رہا ہے  جس میں ہر انسان کی مفاد پرستی  خود غرضی ،اور بے مروتی  کا ذکر ہے اس افراتفری کے دور میں انسا ن وفا،محبت ،خلوص،ایثار کو بھول چکا ہے ان جذبات سے انسان کا کوئی تعلق نہیں رہا مروت طبیعت سے کوسوں دور ہے شاعر حیرانی کا اظہار کر رہا ہے کہ اس دور میں محبت تو رہی !نہیں وفا اور محبت کا کیا بنا! معاشرتی زوال کا ذکر میر اس شعر میں کر رہے ہیں۔ فنی خوبیاں H3 اس شعر کا آغاز سوالیہ ہے جیسے شاعر نے کہا کہ مروت اور محبت کو  کیا ہوا ہم شاعر کے الفاظ میں بے بسی اور بے چارگی دیکھتے  ہیں۔ پوری غزل میں کیا ہوا لفظ کی تکر...
 بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا - مکمل تشریح، پس منظر اور فنی تجزیہ بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا مشکل الفاظ کے معنی  بسکہ،چونکہ/اس لیے اسیری،قید آتش زیر پا/قدموں کے نیچے آگ ہونا یعنی جوش موئے آتش دیدہ/آگ سے جلا ہوا بال  حلقہ/کڑی،زنجیر کا حلقہ یا ڈور پس منظر یہ شعر مرزا غالب کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے مرزا غالب کی زندگی میں رونما ہو نے واقعات کو واضح کرتا ہے مرزا غالب کی زندگی میں قیدوبند کے واقعات کم ہی تھے لیکن مالی حالات اور اولاد کا نہ ہونا ان سب مسائل کو غالب قیدوبند کا نام کہہ رہے ہیں مطلب  شاعر اپنے ماندہ حالات  عشق،زنجیر،اور قید کی زنجیروں کو قید کی علامت کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ فنی خوبیاں اس شعر میں شعری صنعت   صنعتِ مراعات النظیر کا استعمال کیا گیا ہے"آتش زیر پا" اور "موئے آتش دیدہ" میں لفظ "آتش" کا خوبصورت  استعمال  مراعات النظیر کی مثال ہے جس سے شعر با اثر معلوم ہوتا ہے۔ غالب کا تخیل بہت بلند ہے وہ زندگی کی قید کو اپنے تخلیق کردہ انداز میں بیان کر رہے ہیں جو قاری کے لئے نیا ...
 مرزا غالب کا شعر اور تشریح نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا  عنوان    مرزا غالب کے اس شعر میں ہم شعر کی فنی  خوبیوں گہرائیوں اور  اس میں جو بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے  آسان الفاظ میں سمجھیں گے۔ پس منظر  مرزا غالب ابتدا میں مشکل اشعار کہتے تھے زبان و بیان خالص اردو پر محیط تھا جس کی وجہ سے عوام الناس کو غالب کی شاعری سمجھنے میں مشکل ہوتی تھی لیکن شاعری میں بہترین مفہوم پنہا  ں ہوتے تھے اور فلسفہ تھا آہستہ آہستہ کچھ آسان گوئی کی طرف مائل ہوئے یہ شعر مرزا غالب کے دیوان میں شروع میں رکھا گیا ہے۔یہ شعر واضح کرتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور سراسر فریب ہے۔اس کا وجود اور حقیقت کچھ اور ہے۔سب عارضی ہے  فنی خوبیاں  مرزا غالب کا اس شعر میں نقش فریادی  کہنا ایک استعارہ ہے۔یعنی جو تصویرکو ایک مظلوم اور فریادی کو ظاہر کرتا ہے۔ شوخی تحریر  کا لفظ استعمال کر کے غالب نے خوبصورت الفاظ میں مصوری کی بنیاد قرار دیا ہے۔ یہ شعر غالب کے انداز بیان اور گہرے فلسفے کی غمازی کرتا ہے۔شعر قاری کو اپنے سحر میں مبتلا کر ...
 شعر غالب کے مشکل شعر کی تشریح   ہوچکیں غالبؔ بلائیں سب تمام  ایک مرگ ناگہانی اور ہے عنوان اس شعر میں غالب نے اپنی زندگی کے کروب و تکلیف کو درد بھرے انداز میں بیان کیا ہے جن سے وہ دوچار رہے۔ ایک مرگ ناگہانی اور ہے کہہ رہے ہیں یعنی اچانک آنے والی موت رہ گئی ہے باقی تکلیفوں کے بعد۔ تمہید  اردو ادب میں غالب کا مقام بہت بلند ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں غالب اردو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر لکھنے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔غالب ہر دور میں غالب (بلند* رہے ہیں  غالب کے اشعار میں خاص طور پر فلسفہ ؛دنیا کی بے ثباتی دنیا کے رنج و الم اور انسان کی بے بسی کا ذکر کیا گیا ہے پس منظر (Context) یہ شعر دیوان غالب کا ہےیہ غالب کی دکھ بھری زندگی  اور مصائب و آلام کا آئینہ دار ہے۔غالب قرض اور شراب نوشی میں مبتلا رہتے تھے جس کی وجہ سے زندگی اجیرن  ہو گئی تھی۔غالب کو انگریزی دور میں پنشن کے لیے بہت تگ ودوہ کرنی پڑی تھی۔جس کے لیے غالب نے مشکل سفر طے کئے۔اس شعر میں غالب نے سب تکلیفوں کے بعد موت کے آنے کا ذکر کیا ہے کہ ان تکلیفوں کے بعد بس  اچانک  موت کی دیر ہے۔ تشریح...
 شعر: محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند عنوان - محبت مجھے ان جوانوں سے ہے علامہ اقبال کے نوجوانوں کے لیے دیکھے گئے خوابوں کا ذکر کہ وہ کس طرح اڑان بھر سکتے ہیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر۔ پس منظر یہ شعر علامہ اقبال کے شعری مجموعے "بالِ جبریل" سے لیا گیا ہے، جو 1935ء میں شائع ہوئی۔ "بالِ جبریل" میں علامہ اقبال نے فلسفۂ خودی، اسلام کی نشاۃِ ثانیہ، اور نوجوان نسل کے کردار پر زور دیا ہے۔ یہ شعر اُنہی خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ اقبال کی پوری شاعری عالم اسلام کی اصلاح اور انہیں اپنا مقام پہچاننے پر زور دینے پر مبنی ہے۔اسلاف کی مثالیں دی گئی ہیں۔ شعری ماخذ مجموعہ: بالِ جبریل سنِ اشاعت: 1935  مشکل الفاظ کے معنی محبت: انس، پیار کمند؛ قابو پانے کی کوشش کرنا' چیلنج کرنا،کوشش کرنا فنی و شعری خو بیاںستاروں پر کمند ڈالنے کی مثال ایک استعارہ ہے جو نوجوان کے لیے بلند ہمتی اور حوصلے کی علامت ہے۔ شعر میں ستاروں کا ذکر اجسام فلکی کا ذکر کرنا نہیں ہے بلکہ ستاروں کی طرح بلندی حاصل کر نے پر زور دیا گیا ہے۔ ردیف وقافیہ شاعری کی  خوبصورتی ہوتے  ہیں قافیہ ...
  ناصر کاظمی کی غزل - آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو ناصر کاظمی کی غزل: "آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو" – میری آواز میں اردو ادب کے معروف اور حساس شاعر ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک خاص درد، تنہائی اور گہرائی پائی جاتی ہے۔ آج کی اس پوسٹ میں، میں نے ان کی ایک مشہور غزل کو اپنی آواز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ غزل ان دلی کیفیات کو بیان کرتی ہے جن میں حسنِ خیال اور درد کا امتزاج ہو۔ غزل: آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو شاعر: ناصر کاظمی آواز: میری آواز میں اگر آپ کو یہ ویڈیو پسند آئے تو براہِ کرم اپنے تاثرات ضرور شیئر کریں۔ اردو شاعری سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ بلاگ ایک ادبی خزانہ ہے، جس میں ہم شعری تشریحات، ادبی شخصیات، اور دل کو چھو لینے والے اشعار کو پیش کرتے ہیں۔ مزید غزلیں اور اشعار کی تشریحات کے لیے ہمارا بلاگ فالو کریں۔ آپ کی رائے اور محبت ہمارے لیے باعثِ حوصلہ ہے۔ اردو شاعری کی تشریح اور معنی ہ...
 عنوان محبوب کو اس کے کئے گئے وعدوں کی یاد دہانی "یاد، وعدے اور شکوے – اردو شاعری کا حسن" شعر وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے تمہیں بھی یاد ہے کچھ؟ یہ کلام کس کا تھا؟" تشریح  یہ شعر استاد داغ دہلوی کی معروف ومقبول غزل  "تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا " غزل کا ہے- داغ دہلوی کو علامہ اقبال اپنا استاد مانتے تھے ۔اس شعر میں شاعر محبوب کو اس کے کئے گئے وعدے یاد کروا رہا ہے  اور کہہ رہا ہے کہ ہم نے عہدوپیمان کیا تھا کہ ایک دوسرے کی بات مانیں گے وفا کے دستور کو نباہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا شاعر طنزیہ کہتا ہے کہ وہ سب وعدے جو ہمارے درمیان ہوئے تھے وہ کس کے تھے؟جو محبوب بھول چکا ہے۔ فنی خوبیاں  داغ دہلوی کی خصوصیت ہے کہ وہ اپنی شاعری میں عشق وعاشقی کا ہر عنوان باندھتے تھے۔اور بڑی خوبصورتی سے عاشق کے دل کی کیفیات بیان کرتے تھے۔ اس شعر میں سلاست اور روا نی ہے ایک سوالیہ انداز ہے جو عاشق محبوب سے پوچھ رہا ہے۔ طنز اور شکوہ کا انداز ہے جو عاشق محبوب سے کر رہا ہے۔ تبصرہ داغ کی ہم مکمل  غزل دیکھیں تو اس میں عاشق محبوب سے گلہ شکوہ کرتا نظر آئے گا۔عاشق کہتا ہے کہ م...
  شعر           منت چارہ ساز کون کرے   درد جب جاں نواز ہو جائے عشق دل میں رہے تو رسوا ہو لب پہ آئے تو راز ہو جائے فیض احمد فیض  عنوان اس شعر میں عشق کے درد اور رسوائی کو بیان کیا گیا ہے  کہ عشق میں درد آہستہ آہستہ راس آجاتا ہے۔ تشریح  پہلے مصرعے میں منت کا مطلب التجا یا درخواست کرنا ہےاور چارہ ساز اسے کہا جاتا ہے جو کسی کی تکلیف ختم کرے۔فیض کہتے ہیں کہ اس درد کا علاج کوئی کیا کرے گا جو درد خود دوا بن جائے جیسا کہ غالب کے شعر کا مصرع ہے کہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ایسا درد کوئی کیوں ختم کرنے کا کہے جو خد "جاں نواز' ہو جائے۔ درد دینے والا محبوب ہے لیکن عاشق لوگ محبوب کی طرف سے دیے گئے دکھ تکلیفیں ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں کہ کبھی تو محبوب مہربان ہو جائے گا۔اسی سوچ میں اسے درد بھی دوا لگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے عاشق کے دل میں عشق و محبت ہوتی ہے تو وہ اس کی آنکھوں ادا اور رویے سے ظاہر ہوتا ہے چھپائے نہیں چھپتا  عاشق جتنا بھی عشق کے جذبے کو چھپائے وہ ظاہر ہو کر عاشق کو رسوا کر دیتا ہے۔ عاشق اگر ...
ہم جی رہے ہیں، کوئی بہانہ کیے بغیر – جون ایلیا شاعری دل کا آئینہ ہوتی ہے، اور جون ایلیا جیسے شاعر اپنی سادہ لیکن گہری باتوں سے قاری کے دل کو چھو جاتے ہیں۔ آج کی اس بلاگ پوسٹ میں ان کے کچھ خاص اشعار شامل کیے جا رہے ہیں جنہیں آپ میری آواز میں نیچے ویڈیو میں بھی سن سکتے ہیں۔ یہ اشعار نہ صرف دل کی کیفیت بیان کرتے ہیں بلکہ ایک مکمل کیفیتِ تنہائی اور بےنیازی کو بھی پیش کرتے ہیں۔ اور جون محبوب کو اٹھتے بیٹھتے سوتے،جاگتے اپنے قریب محسوس کرتے ہیں اور ہر حال میں محبوب کا ساتھ چاہتے ہیں۔ ہم جی رہے ہیں، کوئی بہانہ کیے بغیر اس کے بغیر، اس کی تمنا کیے بغیر انبار اُس کا پردۂ حرمت بنا میاں  دیوار تک نہیں گری پردا کیے بغیر یاراں وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل بے حد عزیز ہے مجھے اچھا کیے بغیر میں بستر خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس صبح ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر اس کا ہے جو بھی کچھ ہے مرا اور میں مگر وہ مجھ کو چاہئے کوئی سودا کیے بغیر یہ زندگی جو ہے اسے معنیٰ بھی چاہیے وعدہ ہمیں قبول ہے ایفا کیے بغیر اے قاتلوں کے شہر بس اتنی ہی عرض ہے میں ہوں نہ قتل کوئی تماشا کیے بغیر مرشد کے جھوٹ کی تو سزا...
 شعر تمھاری بے رخی اک دن ہماری جان لے لے گی قسم تم کو ذرا سوچو دستور وفا کیا ہے عنوان اس شعر میں محبوب کی بے رخی اور عدم توجہی کا ذکر کیا گیا ہے شاعر خوبصورتی سے محبوب کو وفا کی اہمیت اور اسکے تقاضے ،دستور بتا رہا ہے ۔شاعر بہزاد لکھنوی کا یہ بہترین شعر ہے۔ تشریح  یہ شعر بہزاد لکھنوی کا ہے ۔شاعر اپنی محبت کی بے بسی مایوسی اور بے وفائی کا تذکرہ کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ میرے محبوب نے اگر اسی طرح مجھے بے رخی دکھائی تو وہ عاشق کی جان بھی لے سکتی ہے محبوب کی مسلسل بے پروائی اسے بے جان کر رہی ہے۔اس کے بعد محبوب کو وفا کا دستور یاد دلاتا ہے کہ زمانے میں کیسے وفادار لوگ بستے ہیں اسے اس پر غور کرنا چاہیے اور عاشق کو مسلسل بے قدری اور بے رخی نہیں دکھانی چاہئے۔ بلکہ احساس اور نرم مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ فنی خوبیاں  شعر کے پہلے مصرعے میں ایک درد کرب اور اذیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ عاشق کس  طرح محبوب کی بے رخی سے پریشان ہے۔ شعر میں جذبات بھرپور طریقے سے بیان کیے گئے ہیں۔ محبوب سے وفا اور نرمی کا بہترین انداز میں تقاضاکیا گیا ہے۔ پس منظر  شعر میں جذباتی گہرائی کو بھرپور ا ند...
  عنوان: "بے قراری سی، بے قراری ہے" — جون ایلیا کی غزل، میری آواز میں غزل: بے قراری سی بے قراری ہے وصل ہے اور فراق طاری ہے جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے بن تمہارے کبھی نہیں آئی کیا مری نیند بھی تمہاری ہے آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن سانس جو چل رہی ہے آری ہے اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں رات دن تیری انتظاری ہے ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے اک مہک سمت دل سے آئی تھی میں یہ سمجھا تری سواری ہے حادثوں کا حساب ہے اپنا ورنہ ہر آن سب کی باری ہے خوش رہے تو کہ زندگی اپنی عمر بھر کی امیدواری ہے میرا احساس اور تشریح: جون ایلیا کا یہ کلام دل کی گہرائیوں سے نکل کر قاری کے دل تک پہنچتا ہے۔ ان کے اشعار میں جو سادگی اور گہری اداسی ہے، وہی کیفیت میری آواز میں آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ صرف ایک غزل نہیں بلکہ ایک جذباتی آئینہ ہے ویڈیو دیکھیں اور سنیں (میری آواز میں): اردو شاعری کی تشریح اور معنی ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ د...
شعر   دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں عنوان فیض احمد فیض کا درد و استعارے سے بھرپور شعر: "دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں" — ایک فنی و  معنوی تجزیہ جو دل کو چھو جائے شعر کا پس منظر  یہ شعر فیض احمد فیض کے مجموعۂ کلام "دستِ صبا"  میں شامل ہے، جو ان کے رومانوی اور انقلابی ذہن کی عکاسی کرتا ہے فیض نے زیادہ تر انقلابی طرز کی شاعری کی آن کی شاعری میں ہم اکثر محبت اور انقلاب کو ایک ساتھ دیکھتے ہیں جیسا کہ ہم انکی یہ نظم پڑھیں  جس میں محبت اور انقلاب دونوں کا ذکر ہے  "مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ " فیض کی شاعری میں قید اور جلاوطنی کے دوران جو احساسات تھے ان کاظاہر ہونا دیکھتے ہیں۔ فنی خوبیاں  اس شعر میں تشبیہ کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا  ہے "جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں " کعبہ اور صنم ان دو کا اکٹھے ذکر ایک گہرا معنی دے رہا ہے تکرار کیفیت پیدا کی گئی ہے جیسےبھولے ہوئے غم جو دل کو پھر سے گدگدا رہے ہیں  'پہلے مصرعے میں دل میں یوں تیرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں میں شاعر کہت...
عنوان  کیا ستم ہے۔۔۔ تخیل میں ہمیشہ رہنے والا چہرہ دھندلا گیا شعر کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت غور کرنے پہ یاد آتی ہے تشریح یہ شعر جون ایلیا کا مشہور شعر پے ویسے تو جون ایلیا اپنے دور کے اور اس دور کے مشہور شاعر ہیں ان کے کئی  اشعار زبان زد عام ہیں۔شاعر اس شعر میں اپنے محبوب کی یاد کا المیہ بیان کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ محبوب کا چہرہ جو ہمہ     وقت اس کی آنکھوں  میں بستا تھا اس کے تخیل میں آباد رہتا تھا  اب اسی چہرے کو یاد کرنے کے لیے غور کرنا پڑتا ہے ذہن کو جھنجھوڑنا پڑتا ہے یہ ایک ستم ہے ستم اس طرح کہ شاعر افسوس اور المیے کا اظہار کر رہا ہے  وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدل جاتے ہیں شاعر کہتا ہے کہ اے میرے محبوب اب میں تجھے یاد کروں تو تیری صورت فورا میری آنکھوں میں نہیں سماتی۔ شاعر اس شعر میں وقت کے ستم حالات کی ناسازی اور بے  بسی کا اظہار کر رہا ہے۔ فنی خوبیاں شعر کی زبان بہت سادہ ہے لیکن مطلب میں گہرائی لیے ہوئے ہے۔یہ شاعر کا فن ہوتا ہے کہ وہ سادہ الفاظ میں خیالوں کا جہاں اور مطلب کی گہرائی لے آتا ہے یہ اچھے شاعر کی پہچان ہے غور کرنے پر یاد ...
ماں کا کردار  ماں ایک ایسا لفظ اور احساس ہے جسے بولتے ہی سکون اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔کیونکہ ماں ہی ہمیں دنیا میں لاتی ہے نو مہینے ہمیں اپنے پیٹ میں رکھتی ہے یہ بہت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔جس کا بے پناہ اجر عظیم ہے،اس کے بعد پیدائش کا مرحلہ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے جس میں جان چلے جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ماں کی آغوش میں جو سکون  ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتا۔ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہ جہاں سے وہ سب کچھ سیکھتا ہے۔عظیم اطوار وعادات کی ماں ایک اچھی نسل دیتی ہے ایسے انسان کو تیار کرتی ہے جو معاشرے کے لئے ہر لحاظ سے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ ماں کے دل سے جو دعا نکلتی ہے وہ قبول ہوتی ہے اگر ماں اولاد کے حق میں دعا گو رہے تو کامیابی قدم چومتی ہے،زندگی کا ہر مرحلہ آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔حدیث پاک ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں کی خدمت اور ادب کرے گا جنت کا حقدار ہو گا۔ حدیث پاک میں ہے کہ ماں کی عزت اور عظمت کے چار حصوں میں پہلے تین کی حقدار ماں ہے چوتھے کا حقدار باپ ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہم اگر پوری زندگی خدمت کریں تو ماں کی ایک رات کی تکلیف جو اس ...