Skip to main content

محبوب کی جدائی اور دل کی تپش — میر تقی میر کے ایک شعر کی جامع تشریح

 

شعر H1


جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا

طپش کی یاں تئیں دل نے کہ درد شانہ ہوا


— میر تقی میر





میر کے مشکل اشعار کی تشریح/جدا جو پہلو سے وہ
میر تقی میر شاعری کرتے ہوئے/ایک خیالی انداز



سیاق و سباقH2 


اردو شاعری میں درداور جدائی کے موضوعات پر بہت سے شعراء نے لکھا لیکن میر کا مقام ان سے جدا ہے۔میر تقی میر کے کلام میں محبوب کا ذکر اور اس کی جدائی پر ماتم کیا گیا ہے۔اس شعر میں شاعر محبوب کی جدائی اور یاد میں افسردہ ہے محبوب کی جدائی سے اس کی جان پگھل رہی ہے ۔

محبوب کی جدائی نے اس کی روح کو زخمی کر دیا ہے اور درد روح تک سرایت کر چکا ہے۔شعر میں میر نے ایک سچے عاشق کی دلی کیفیت کو بیان کیا ہے جذبات کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کی ہے۔محبوب سے وصل کی خواہش اور اس کی جدائی نہ صرف روح کو زخمی کرتی ہے بلکہ جسم بھی اس سے متاثر ہو کر بے جان ہو گیا ہے۔شاعر کے مطابق محبوب کی جدائی ہڈیوں کو پگھلا نے والی اور مسلسل غم  کی وجہ سے بڑھاپے کا باعث ہے۔اور وصل یار ایک نئی زندگی ہے۔


مشکل الفاظ کے معنی H3


پہلو/ساتھ بیٹھنے کی جگہ،جسم کے ساتھ جڑنا یعنی قربت

دلبر/یعنی محبوب

یگانہ/مختلف ،انوکھا یعنی کہ بے مثال

طپش/تڑپ ہونا،مطلب جذبات کی گرمی

تئیں/کی خاطر،مطلب کسی کے لیے

درد شانہ/شانہ مطلب درد،یعنی کندھے کا درد،غم کو ظاہر کرنے کے لیے علامتی طور پر استعمال کیا گیا ہے 

تشریح H4


شاعر کہتا ہے کہ محبوب جب میرے ساتھ تھا خوشی ہی خوشی تھی خدا مجھ پر مہربان تھالیکن جب وہ میرے پہلو سے جدا ہوا تو
وہ میرے لیے بہت قیمتی اور ضروری بن گیامحبت میں دوری مزید قربت کا باعث ہے محبوب میرے لیے ضروری ہو گیا۔
شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی جدائی مجھےلاغر کر دیا ہے اس کی جدائی میری روح کو زخمی کر گئی ہے میرے جذبات کی شدت سے میرے جسم پر اثر کر گئی ہےیہاں تک کہ میرے شانے کندھے میں دردمحسوس ہو رہاہے۔
کہتے ہیں کہ جدائی موت ہے شاعر کے نزدیک محبوب سے جدائی اسے موت کے قریب لے گئی ہے اور انتظار کی شدت اسے نڈھال کر رہی ہے
بقول مرزا غالب 

آ کہ میری جان کو قرار نہیں ہے
طاقت بیداد انتظار نہیں ہے

شعر میں درد شانہ کا استعمال علامتی طور پر کیا گیا ہےجو ایک جسمانی تکلیف کی حالت اور دکھ کا اظہار ہے۔

فنی خوبیاں H5

اس شعر میں میر نے سادہ اور رواں زبان استعمال کی ہے لیکن پر اثر انداز میں اپنے خیالات کو پیش کیا ہے جو کہ میر کی خصوصیت ہے۔

شاعر نے جذبات کو یعنی دل کی تپش کو کندھے کے درد سے جوڑ کر اپنی جسمانی کیفیت اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔جس سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔

"طپش" اور "دردِ شانہ" جیسے الفاظ صرف ظاہری معانی نہیں رکھتے بلکہ ان میں گہرے مجازی معنی چھپے ہیں جو عاشق محسوس کر سکتا ہے۔


اردو شاعری کی تشریح اور معنی 



ہماری ویب سائٹ پر آپ کو اردو ادب کے عظیم شعرا جیسے کہ غالبؔ، اقبال، فیض، جون ایلیا، داغ دہلوی کی شاعری کی منفرد اور آسان تشریحات دستیاب ہیں۔ ہر نظم اور غزل کی گہری معنویت اور ادبی پہلوؤں کو سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اردو شاعری کی روح سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اہم موضوعات:
اردو کلاسیکل شاعری کی تشریحات
فلسفہ خودی اور اقبال کی شاعری
فیض احمد فیض کا رومانوی کلام
جون ایلیا کی اداس شاعری
داغ دہلوی کا رومانوی انداز
مزید اردو ادب اور شاعری کے راز جاننے کے لیے ہماری مزید پوسٹس بھی ضرور پڑھیں۔ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم آپ کے لیے مزید بہترین مواد پیش کر سکیں۔






















Comments

Popular posts from this blog

 (عنوان: غالب کا فلسفۂ عشق و مردانگی) شعر "دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا عشقِ نبرد پیشہ، طلبگارِ مرد تھا" سیاق وسباق یہ شعر مرزا غالب کا ہےغالب کی شاعری عشق و فلسفہ پر مشتمل ہے غالب انسانی نفسیات  کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔اردو ادب میں غالب کا مقام بلند اور منفرد ہے۔اس شعر میں غالب نے فلسفہ عشق کو بیان کیا ہے۔عشق میں مردانگی اور بہادری کا درس دیا ہے۔ مشکل الفاظ کے معنی  باب نبرد/میدان جنگ عشق نبرد پیشہ/ایسا عشق جو جنگ کی طرح لگتا ہو قربانی مانگے طلبگار مرد/مردانگی کی خواہش رکھنے والا یعنی بہادر پس منظر  اس شعر میں مرزا غالب نے عشق کی راہ میں حائل ہو نے والی تکلیفوں اور آزمائش کو بیان کیا ہےغالب کے نزدیک عشق کرنا آسان نہیں یہ قدم قدم پر صبر اور قربانی مانگتا ہے جو بہادر مرد کا کام ہے ایسے مرد کا کام نہیں جو دھمکی سے مر جائے۔ یہ شعر فلسفیانہ وصوفیانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ فنی خوبیاں  صنعت تضاد کا استعمال  "دھمکی میں مر گیا" اور "طلبگارِ مرد تھا" ان لفظوں میں ایک طرف بزدلی کا ذکر کیا گیا ہے جیسے دھمکی میں  مر گیا جبکہ دوسری طرف  مردمیدان کا  ...

"کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو" — مرزا غالب کے مشہور شعر کی تشریح، مفہوم، سیاک و سباک اور فنی تجزیہ

  شعر:H1 کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا سیاق وسباق H2 یہ مرزا غالب کا مقبول ومعروف شعر ہے۔مرزا غالب کا درد انگیز شعر ہے۔غالب کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ ملتاہے۔مرزا غالب کا دور 1797 سے لے کر 1869 تک کا ہے غالب نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھےمغلیہ سلطنت کا زوال ،دلی کی تباہی اور ان کی ذاتی زندگی کی مشکلات ان سب کا ذکر ان کی شاعری میں ملتا ہے۔غالب ذاتی دکھ کو اجتماعی یعنی معاشرتی المیے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ غالب نے اردو ادب میں اپنے اچھوتے انداز سے نام پیدا کیا چاہے وہ اردو نثر ہو یا اردو نظم دونوں میں مقبولیت پائی۔ غالب کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جہاں دوستی اور محبت میں مخلصی اور خلوص برائے نام رہ گئے ہیں لوگ اگر کچھ محبت یا ہمدردی کرتے ہیں تو وہ محض دکھاواہے۔ان کے دل خلوص سے خالی ہیں۔ مشکل الفاظ کے معنی H3 تیر نیم کش/آدھا چلا ہو ا تیر،یعنی جو دل تک نہ پہنچا ہو نہ اترا ہو خلش/تکلیف ہونا /گھٹن چبھن پار ہونا/مکمل چبھ جانا مطلب مکمل آر پار ہونا ...
غالب کا پیچیدہ شعر: 'مرغوب بتِ مشکل' کی مکمل تشریح، معنی اور فنی تجزیہ" شعر شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل" پسند آیا تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا مشکل الفاظ کے معانی شمار سبحہ/وقت کا حساب رکھنا،گننا مرغوب بت مشکل پسند/پسندیدہ مشکل پسند محبوب بہ یک کف/ایک ہاتھ میں  /بردن فارسی لفظ /لے کر جانا صد دل/سودل پس منظر اس شعر کے پس منظر میں غالب کے عشق کا اظہار محبوب کی طرف سے یو کیا گیا ہے کہ محبوب سخت دل اور مشکل طبیعت کا مالک ہےغالب کے ہر شعر میں روایتی اردو کلاسیکل انداذ نظر آتا ہے۔ غالب کے کلام میں محبوب سے محبت کا اظہار جفا کے باوجود بھی ہم اکثر دیکھتے ہیں۔غالب عاشق کو عشق میں ثابت قدم رہنے کا درس دیتے ہیں۔ فنی خوبیاں مرزا غالب کی شاعری کی ایک خاصیت تراکیب کا استعمال ہے جو ان کا خاصہ ہے غالب کی شاعری میں بہت سے الفاظ تراکیب بن گئے ہیں جن کو ذخیرہ الفاظ کے طور پر صاحب علم استعمال کرتے ہیں اس شعر میں فارسی تراکیب کا استعمال کیا گیا ہے "بُتِ مشکل"، "بہ یک کف"، "بُردن" جیسے فارسی الفاظ نے کلاسیکی حسن پیدا کیا۔ اور شعر کی خوبصورتی کو...